قرآن مجید
قرآن اللہ تعالیٰ کی نازل کر دہ آسمانی الہامی کتاب ہے ۔ جو کہ بذریعہ حضرت جبرائیل امین آخرالزمان نبی حضرت محمد ﷺ
کے قلب مبارک پر القاء کی گئی ہے اور آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے اس کااظہار ہوا ہے ـ’’قرآن حکیم کو گھر میں رکھنا
باعث برکت ہے ۔ اس کا پڑھنا باعث ثواب اور اس پر عمل کر نا باعث نجات ہے ‘‘۔قرآن مجید چونکہ ہمارے عمل کے لئے آیا ہے اور
مکمل ضابطہ حیات ہے لہٰذا اس پر کماحقہ عمل اس صورت میں ہی ہو سکتا ہے جبکہ اسے صحیح طور پر سمجھا جاسکے۔ بعض
آدمی کہتے ہیں کہ قرآن پاک کاترجمہ ہو چکاہے ۔ اس لئے ہر آدمی آسانی سے قرآن کو سمجھ سکتا ہے مگر یہ بات محض جہالت
ہے کیو نکہ اہل عرب جن کی مادری زبان عربی تھی انہیں سمجھانے کیلئے رسول ﷺ کو مبعوث فرمایا بلکہ خود رسول اللہ
ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھایا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اَلرَّحْمٰنُ o عَلَّمَ الْقُرْاٰنَo (الرحمٰن، ۵۵:۱،۲)
’’(وہ)رحمن ہے جس نے (آپ ﷺ کو ) قرآن سکھایا‘‘
بعثت رسول ﷺ کا ایک مقصد اورفریضہ ، قرآن کو تلاوت فرما کر اس کا علم سکھانا اور اس کی حکمت سمجھانا قرار پایا ۔ جیسا
کہ ارشاد ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزْکِیِّھِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃً o(آل عمران، ۳:۱۶۴)
’’ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میںایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا
ہے ۔ انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے گمراہی میں تھے‘‘۔
قرآن پاک میں ایک جگہ ارشادفرمایا کہ قرآن کی کچھ آیات محکمات ہیں ۔ جنہیں آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ( جیسے اوا مرو
نواہی ) اور کچھ آیات متشابہات ہیں جنہیں سمجھنے کے لئے راسخون فی العلم یعنی پختہ علم (روحانی علم)والوں سے سمجھنے کی
ہدایت فرمائی گئی ہے پختہ علم والے متقی حضرات ہیں ۔ھدی للمتقین ہدایت ہے متقیوں کیلئے ۔
متقی حضرات اولیاء اللہ ہی ہیں۔ جو صحیح طور پر قرآن کے اسرارو رموز کو سمجھ سکتے ہیں ۔ اگر علمائے ظاہر قرآن پاک کو
کماحقہ سمجھ لیتے تو اتنے فرقے نہ بنتے ۔ اتنے زیادہ فرقے بننے کی یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ قرآن کو بجا طور پر سمجھ ہی نہ
سکے ۔ اس لئے علمائے باطن اولیاء اللہ ہی صحیح معنوں میں وارث مصلیٰ اور وارث انبیا ء ہیں۔ ان سے ہی قرآن کے اسرارور
موز حاصل ہوسکتے ہیں ۔اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن عظیم کو نازل فرمایا۔ ارشاد فرمایا: تِبْیَا نًا لِکُلِّ شَیْئٍ(النحل، ۱۶:۸۹)اس قرآن
میںہر چیز کا روشن بیان ہے۔ کوئی ایسی بات نہیں جو قرآن عزیز میں موجودنہ ہو لیکن ساتھ ہی فرمایا: وَمَایَعْقِلُھَااِلّاالْعٰلِمُوْنَ
(العنکبوت ،۲۹:۴۳) اسے علماء (باطن) ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اسی وجہ سے عوام کو علماء ۔علماء کو آئمہ ولایت ۔ آئمہ ولایت کو
سرورکائنات خاتم رسالت ﷺ کی طرف رجوع کی ضرورت ہوگی ۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِاِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَo (النحل، ۱۶:۴۳)
’’ذکر والو ں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے‘‘۔
مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی مسئلہ شرعی (آیات محکمات) کی تصدیق و تحقیق مطلوب ہے تو علمائے مجتہدین کی جانب رخ کر و اور
اگر (آیات متشابہات) مسئلہ طریقت و علوم مکاشفہ کا حل چاہتے ہو تو اصحاب کشف ، اہل اللہ ،پیران عظام اور اولیائے کرام کی
خدمت میں جاؤ۔ کیونکہ یہ حضرات اہل ذکر ہیں یہ ہی قرآن کو صحیح طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ظاہری علم والے یونہی از
خود کتاب اللہ یعنی قرآن عزیز کو سمجھنے پرقادر نہیں ہیں اس لئے اس کے متصل ہی فرمایا:
وَاَنْزَ لْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ
’’اے محبوب ﷺہم نے آپ کے پاس ذکر (قرآن) اس لئے
اتارا ہے کہ آپ ﷺ لوگو ں سے پوری شرح اور وضاحت سے بیان
کردیں ۔ اس چیز کو جو ان کی طرف اتاری گئی‘‘۔
اللہ تعا لیٰ ان دو آیات مقدسہ کے باہم ربط اور اتصال سے فہم کلام الہیٰ کا سلسلہ منظم فرمارہا ہے ۔ کہ اے عوام (بے علم لوگو)تم کلام
علماء کی طرف رجوع کرو اور اے عالمو تم آئمہ ولایت کے کلام کو دیکھو اور اے آئمہ ولایت تم ہمارے رسول مقبول ﷺ کے
کلام کو ملاحظہ کرو۔ تو تمہیں ہمارا کلام سمجھ میں آئے کسی شخص نے ہم سے کہا کہ قرآن پاک میں آیا ہے۔
لَوْاَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہ‘ خَاشِعًا مُتَصَدِّ عًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ o (الحشر)
’’ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑوں پر نازل فرماتے
تو وہ خوف الٰہی سے ریزہ ریزہ ہو جا تے‘‘۔
اگر آج ہم قرآن پاک کے نسخے اٹھا کر پہاڑ پر رکھ دیں ، تو وہ جنبش تک بھی نہیں کریں گے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم نے کہا!’’
قرآن کے نزول کے وقت تجلی کا بھی نزول ہوتاتھا۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کوہ طور پہاڑ جل گیاتھا۔وہ تجلی کا اثر تھا مگر حضرت
موسیٰ دیدار میں محو تھے۔ دنیا سے بے ہوش ہوگئے ۔ نزول وحی کے وقت یہی کیفیت حضور سید عالم ﷺپر ہوا کرتی تھی
کیو نکہ قرآن کے نسخوں میں الفاظ قرآن ہیں اور اولیاء اللہ کے سینے (دل) اسراروتجلیات الٰہی کے گنجینے ہیں ۔ سلطان العارفین
فرماتے ہیں!
جنہاں شوہ الف تھیں پایااوہ کھول قرآن نہ پڑھدے ہو
اوہ مارن دم محبت والا دور ہویو نے پردے ہو
دوزخ بہشت غلام تنہا ندے چاکیتو نے بردے ہو
میں قربان تنہاںتے باہو جیہڑے وحدت دیوچ وڑدے ہو
یعنی جن عارفان کامل نے محبوب حقیقی کو اسم اللہ کی الف میں پایا ہے وہ تو حافظ و مفسر قرآن بن گئے ہیں۔ انہیں قرآن پاک کھول
کہ پڑھنے کی احتیاج نہیں ہے۔ عارف کامل پر تمام علوم قرآن منکشف ہوتے ہیں ۔حضرت سلطان العارفین فرماتے ہیںیہ معمہ لسان
الغیب ہے کہ قرآن شریف کو بغیر زبان کے پڑھنا ، بغیر ظاہری آنکھ کے دیکھنا اور مکان لاہوت میں پہنچنا ۔ اس بارے میں احمق
وپریشان لوگوں کے سامنے بیان دینے کی کیا ضرورت ہے۔
پھر فرماتے ہیں! دونو ں جہان علم قرآن کی قید میں ہیں اور علم قرآن کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی طے میں ہے اور کلمہ
طیبہ اسم اللہ ذات کی طے میں ہے کلمہ طیبہ اور اسم اللہ ذات سارے وجود کو یکبار گی پاک اور پاکیزہ بنادیتا ہے اور وجود سے پر
دہ اٹھا کردیدار سے مشرف کردیتا ہے اس پر تو تعجب نہ کر کیو نکہ علم غیب۔ غیب اللہ تک پہنچاتا ہے علم اللہ کافی ہے باقی ہوس
ہے ۔ ہر کہ سوائے اللہ طلب کنداہل ہوس۔ جو کوئی بغیر اللہ کے طلب کرتا ہے وہ اہل ہوس میں سے ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
من لہ المولیٰ فلہ الکل جس کااللہ ہے اس کا سب کچھ ہے اس لئے مقامات بہشت دوزخ سب اس کے غلام ہیں نیز سلطان العارفین
فرماتے ۔ فقیر وہ ہے جو عشق و حدانیت میں فنا ہوتا ہے میا ں محمد بخش فرماتے ہیں۔
جے کوئی غرق نہ ہویا بھائی وحدت دے دریاوے
کی ہو یا جے آدم دسدا لیک نہ مرد کہا وے
الٓمٓ
ایک دفعہ کسی آدمی نے ہم سے کہا کہ الم کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ہم نے اس سے پوچھا ۔ کیا یہ قرآن کے آخر میں ہے؟ وہ کہنے
لگا کہ نہیں حضور یہ تو قرآن پاک کے شروع میں ہے ۔ ہم نے اسے سمجھا یا کہ جو قرآن کو شروع سے ہی نہ سمجھ سکا وہ آگے
کیا سمجھے گا فرمایا !اس سے آگے کیا آیت ہے ’’ذَلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِلْمُتْقِیْنَ‘‘ (البقرہ، ۲:۲) کو ئی شک نہیں اس کتاب میں
ہدایت ہے متقیوں کیلئے ’’ جس چیز کو کوئی بھی نہ سمجھ سکے ۔ اس کانازل کیا جانا عبث وبے کارہے۔ لہٰذا یہ حروف مقطعات
قرآن کے اسرار ور موز ہیں۔ انہیں ہر آدمی نہیں سمجھ سکتا۔ انہیں متقی حضرات ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ اس کے اسرارو ر
موزانکے قلب پر القاء ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے واسطے سے بعض مقرب بندوں کو اس سے آگاہ فرمادیتا ہے۔