تصوف اور صوفی
منکرین تصوف کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں نہ تو تصوف کا کہیں ذکر ہے اور نہ ہی گروہ صوفیا ء کا ۔یہ عجم سے درآمد شدہ فلسفہِ روحانیت ہے ۔ اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور دور صحابہ میں بھی اس اسم کے استعمال کا رواج نہیں تھا۔
مولانا عبد الماجد دریا آبادی :
مولانا عبد الماجد دریاآبادی اپنی کتاب تصوف اسلام میں اخبار مکہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ یہ لفظ صوفی عہد اسلام سے بیشتر بھی رائج تھا اور عابدو برگزیدہ اشخاص کے لیے استعمال ہوتا تھا دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ مسلمانوں میں ابتدا سے ایک گروہ ایسا موجود ہے جس نے مقاصد دنیوی سے قطع نظر کر کے اپنا نصب العین محض یاد خدا و ذکرِ الٰہی کو رکھا اور صدق و صفا (یعنی سچائی اور باطنی پاکیز گی) اور سلوک و احسان (یعنی اخلاص) کے مختلف طریقوں پر عمل پیرا رہا آہستہ آہستہ اس مسلک کا نام مسلک تصوف پڑ گیا اور یہ گروہ’’گروہ صوفیا‘‘ (تصوفِ اسلام )کہلانے لگا۔
اس گروہ کے اکابرین پہلے مسلمان تھے پھر صوفی۔ وہ تصوف کو اسلام کے مقابل ایک علیحدہ مسلک کی حیثیت سے نہیں لاتے تھے۔بلکہ اسلام کے ماتحت اسی کی پاکیزہ ترین صورت کو تصوف کہتے تھے اور تصوف کو محض اس لیے عزیز رکھتے تھے کہ وہ ان کے نزدیک اسلام کی خالص ترین و پاکیزہ ترین تعبیر تھی۔
ان حضرات کے نزدیک تصوف کا مفہوم یہ تھا کہ قرآن و سنت کی پیروی میں انتہائی درجہ کی کوشش کی جائے اسوۂ رسول ﷺ و صحابہ کرام کو دلیل راہ رکھا جائے اور اوامرونواہی کی تعمیل کی جائےاطاعات و عبادات کو مقصود حیات سمجھا جائے ۔ قلب کو محبت الٰہی کا گہوارہ بنایا جائے اور غیر کی محبت سے خالی کیا جائے ۔ نفس کو خوفِ الٰہی سے مغلوب کیا جائے اور صفائے معاملات و تزکیہ ٔ باطن میں کمال درجہ جدو جہد اور کوشش کی جائے ۔
شیخ احمد رفاعی :
قبیلہ مضرمیں ایک جماعت کو بنو صوفہ کہا جاتا تھا اس قبیلہ میں غوث نامی ایک شخص تھا اس کی ماں کا کوئی بیٹا زندہ نہ رہتا تھا۔ اس نے نذر مانی کہ اگر اس کا کوئی بیٹا زندہ رہا تو وہ اس کے سر پر صوفہ (عمامہ) باندھے گی اور اسے کعبہ کے لیے وقف کر ے گی اور پھریہ جماعت حجاج کی خدمت میں انعامات پیش کرے ۔ تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ظہور اسلام کا احسان فرمایا اور وہ لوگ اسلام لا کر عبادت گزار بن گئے۔ بعض نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے کہ جو ان کی صحبت میں رہے صوفی کہلانے لگے اور اسی طرح جو صوفی کہلانے والوں کی صحبت میں رہے وہ بھی صوفی کہلانے لگے ۔ (البرھان المؤید)
یہ لوگ بعد میں اصحاب صفہ کہلائے:
انہی بنو صوفہ میں سے وہ لوگ جو حضورﷺ کی غلامی سے مشرف ہوئے انہیں مسجد نبویﷺ شریف کے صفہ (چبوترے) پر رسول اکرمﷺ سے براہِ راست فیض و تربیت پانے کا موقع ملا اور وہ ’’ اصحابِ صفہ‘‘ کے معزز لقب سے ملقب ہوئے ۔ اسلام لانے سے پہلے یہ لوگ پیشہ تجارت یا کسی اور روز گار کے نہ ہونے کی وجہ سے زمرۂ غرباء وفقرا ء میں سے تھے ہجرت کے بعد یہ مدینہ چلے آئے اور ان میں اکثر حضورﷺ کے غلاموں میں شامل ہو کر شب و روز آپ ﷺ کی تربیت و صحبت سے فیض یاب ہونے لگے ۔ ان درویش صفت پرہیزگار اور متقی لوگوں نے جن کا کوئی باقاعدہ ذریعہ معاش نہ تھا اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کر دیں اور اسلام کی پہلی درس گاہ میں براہ راست حضورﷺ کی نظر کیمیا اثر کی بدولت ظاہر ی اور باطنی تعلیم و تربیت سے بہر ہ ور ہوئے۔
اصحاب صفہ کا قرآن میں ذکر:
ان ہی اصحاب صفہ کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات وارد ہوئیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ! ترجمہ: خیرات ان فقراء کا حق ہے جو اللہ کی زمین پر (کسب معاش کے لیے ) چل پھر نہیں سکتے ۔ ناواقف ان کو سوال نہ کرنے کی وجہ سے تو نگر اور دولت مند سمجھتے ہیں۔ (حالانکہ ان کا سوال نہ کرنا ان کے زہد اور خلق سے لا پرواہی کے باعث ہے) تم ان کو ان کے چہرے سے پہچان لیتے ہو وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔ (سورۃ البقرہ ۲،۲۷۳) علامہ ثناء اللہ پانی پتی نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ حدیث نقل کی ہے۔
حدیث شریف :ابن المنذر نے ابن عباس سے روایت کیا کہ اہل صفہ تقریباً چارسو افراد تھے جو فقراء مہاجرین میں سے تھے ۔مدینہ شریف میں ان کے پاس نہ تو رہنے کی جگہ تھی نہ وہاں ان کا قبیلہ تھا ۔ وہ مسجد نبویﷺ کے چبوترے (صفہ) میں رہتے تھے اور ہمہ وقت تعلیم حاصل کرتے اور عبادت میں مشغول رہتے اور ہر لشکر کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے تھے جسے رسول اللہ ﷺ بھیجتے (التفسیر المظہری۱،۳۹۲)
ان غریب مفلوک الحال اور عبادت گزار بزرگ صحابہ کا ذکر قرآن پاک میں دوسرے مقام پر یوں ہوا۔
فرمانِ باری تعالیٰ:
ترجمہ۔ ’’اے محبوب ﷺ ‘‘اور اپنے آپ کو روکے رکھیں ان لوگوں کے ساتھ جو صبح و شام اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اور صرف اسی کے مکھڑے کے طلبگار ہیں۔ (الکھف۱۸،۲۸)
حدیث شریف :حضرت عبدالرحمٰن بن سہل بن حنیف سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضورﷺ پر(اس وقت ) یہ آیت نازل ہوئی جب آپ ﷺ اپنے گھر وں میں سے کسی (ایک) گھر میں تشریف فرما تھے۔
تو آپ ﷺ ان کی تلاش میں باہر تشریف لائے پس آپ ﷺ نے ایسے لوگوں کو پایا جو اللہ رب العزت کے ذکر میں محو تھے ان کے سر کے بال پر اگندہ تھے جلدیں خشک تھیں اور ایک ہی کپڑا پہنے ہوئے تھے۔ پس جب آپﷺ نے انہیں دیکھا تو ان کے پاس تشریف فرما ہوئے اور فرمایا ’’تمام تعریفیں اس اللہ ذو الجلال کے لیے ہیں جس نے میری امت میں وہ لوگ پیدا فرمائے کہ میں اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھوں (یعنی اپنے آپ کو ان کے پاس بیٹھنے کا پابند بناؤں) (تفسیر ابن کثیر۳،۸۱)یہ وہی لوگ تھے جو پہلے بنو صوفہ میں سے تھے اور بعد میں حضور ﷺ کے حلقہ غلامی میں داخل ہو کر اصحاب صفہ کہلائے۔
غافل لوگ:
حضرت داتا علی ہجویری نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ایک حدیث نقل کی ہے۔
حدیث شریف :جس نے اہل تصوف کی ندا سنی اور اس پر کان نہ دھرا اس کا شمار اللہ کے نزدیک غافلوں میں ہوگیا۔(کشف المحجوب)
اس حدیث سے دو حقیقتیں آشکارہوئی ہیں اول یہ کہ تصوف کا لفظ خود نبی اکرم ﷺ کے قول مبارک سے ثابت ہے دوم یہ کہ اہل تصوف کی راہ ہی تقویٰ اورپرہیز گار ی کی راہ ہے اور اس راہ سے منحرف ہونا غفلت اور بدبختی کی دلیل ہے۔
غفلت انتہائی نقصان دہ ہے:
صوفیاء کے ہاں غفلت انتہائی مضر اور نقصان دہ ہے اور حیات روحانی کے لیے زہرہلاہل ہے۔ اہل دل اور باخدا لوگ اللہ سے رو رو کر اور پکار پکار کر التجا کرتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ ہمیں غفلت سے بچا کیونکہ اہل روحانیت کیلئے اس سے بڑی آفت اور ان کی راہ میںاس سے بڑی رکاوٹ اور کوئی نہیں ایک لمحے کی غفلت صدیوں کی مسافت کے بعد طے کر دہ منزل سے محروم کر دیتی ہے ۔
یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ منزل دور شد
حضرت سلطان باھو:
عارف ِ کامل حضرت سلطان باہو غفلت کی ضرر رسانیوں سے اہل دل کو یو ںخبردار کرتے ہیں۔
جو دم غافل سو دم کافر
یعنی اہل دل کے ہاں غفلت کا ایک لمحہ حالت ایمان سے حالت کفر میں پہنچا دیتا ہے۔ صوفیاء کے ہاں غفلت ایمان سے محرومی کا نام ہے ۔ اس لیے کہ اگر ایک لمحے کے لیے توجہ محبوب سے ہٹ جائے یا محبوب کی نگاہ التفات بندے سے ہٹ جائے تو صوفیاء کے نزدیک یہ حالت بندے کے لیے حالت کفر ہے۔
دورِ صحابہ کرام میں اسم صوفی کا استعمال:
اصحاب رسول اللہﷺ میں اسلام کے روحانی تقاضوں سے متعلقہ تمام خوبیاں بدرجہ ا تم موجود تھیں وہ صوفی درویش ، متوکل راضی برضائے مولا محب اور محبوب سبھی کچھ تھے غرضیکہ وہ ان سب اوصاف سے متصف تھےجو خیال میں آسکتے ہیں۔ لیکن ان سب خوبیوں میں سے بڑی خوبی اور سب سے بڑا وصف جوان کے لیے وجہ افتخار و ناز تھا وہ ان کا حضورﷺ کی صحبت سے فیض یافتہ ہونا تھا اور یہ اتنا بڑا شرف اور اعزاز تھا کہ اس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ حضور ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے والے ہر ایمان دار مرد اور عورت کو صحابی اور صحابیہ کے معزز و قابل رشک لقب سے ملقب کیا جاتا تھا صحابی کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ لاکھوں ، کروڑوں اولیاء غوث اور قطب چاہے کتنے بلند وارفع مقامات طے کر لیں وہ صحابی کے مقام کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے ۔ صحابیت وہ مقام ہے جسے باقی تمام مقامات پر تقدم و عظمت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس لقب کے علاوہ کسی بھی اور لقب سے پکارا جانا کبھی پسند نہ فرمایا حضور ﷺ کے حیات ظاہری سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کی صحبت سے فیض پانے والے تابعی کہلائے ۔ ان کے نزدیک صحبت صحابہ کا شرف اور اس سے منسوب لقب دوسرے سب القابات سے اس لیے عزیز تر تھا کہ یہ لقب ایک واسطے سے حضورﷺ سے براہِ راست نسبت کے اعزاز پر دلالت کرتا تھا۔پھر استبدادزمانہ سے حالات اور رسم و رواج بدلتے چلے گئے نئے نئے القابات و اصطلاحات معرض وجود میں آئیں لہٰذا اہل دل اور اہل صفانے بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے تحت صفائے باطن کے حوالے سے لقب ’’صوفی ‘‘ کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا۔
مولانا عبدالرحمٰن جامی:
پھر وہ خواص اہل سنت جن کے نفوس ذات حق سے منسلک تھے اور جو اپنے قلوب کو غفلت کے طاری ہونے سے محفوظ رکھتے تھے اصطلاح تصوف کے ذریعے منفرد و ممتاز ہو گئے یعنی خود کو اہل تصوف کہنے لگے اور یہ نام ان اکابرین کے لیے دوسری صدی ہجری کے خاتمہ سے قبل شہرت پا گیا۔ (نفحات الانس)
حضرت خواجہ حسن بصری تابعی:
آپ رسول اللہﷺ کے قریب ترین دور سے واصل ہیں الحسن بن ابی الحسن ان کا نام سیار بصری ہے کنیت ابو سعید اور آئمہ ہدیٰ میں سے ایک امام ہیں آپ بہت بڑے عالم جامع و بلند مقام کے حامل بہت فصیح و بلیغ ، خوبصورت اور منفرد تھے اپنے ہم عصر لوگوں میں بہت بہادر تھے اکیس ہجری میں پیدا ہوئے جو کہ حضرت عمر فاروق کا عہد خلافت تھا آپ نے خود حضرت علی کے حضور زانوئے تلمذ طے کیا اور تزکیہ نفس تصفیہ باطن اور معرفت الٰہی کی تعلیم حاصل کی آپ کی وفات 110ہجری میں ہوئی آپ نے بڑے بڑے نامورصحابہ کرام کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوئے ایک روایت یہ ہے کہ حسن بصری کی والدہ ماجدہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں میں کام کرتی تھیں ۔
ان کا گھر مسجد نبویﷺ سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا جب وہ امہات المومنین کے گھروں میں آتیں تو اپنے بیٹے حسن بصری کو ساتھ لاتیں جب حسن بصری (جو کہ اس وقت بہت چھوٹے تھے) رونے لگتے تو ام المومنین حضرت اُم سلمہ ؓ آپ کو گود میں لے کر پیار کرتیں اور اپنا دودھ بھی پلاتیں آپ کو خلفائے راشدین حضرت عثمان غنی اور حضرت علیکی اقتدا ء میں نمازیں پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی آپ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خلافت روحانی بھی حاصل ہوئی آپ نے اپنی زندگی کے کئی سال مدینہ منورہ میں گزارے اور بعد میں بصرہ منتقل ہو گئے گو یا حسن بصری براہ راست دو ر صحابہ کے فیض یافتہ ہیں۔ جبکہ حضورﷺ کے براہ راست تربیت یافتہ صحابہ دین خالص کا فیض عام کر رہے تھے اس لیے حضرت خواجہ حسن بصری کا قول باعتبار روایت واجب التسلیم ہو جاتاہے ۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک صوفی کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور اسے کوئی چیز دی لیکن اس نے نہ لی کہا میرے پاس چار دوانیق ہیں۔
شیخ ابو النصر سراج:
آپ فرماتے ہیں بے شک اسم صوفی نیا نہیں ہے کیونکہ حسن بصری نے جنہوں نے صحابہ کی ایک جماعت کو پایا (اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور حضرت علی سے روحانی خلافت حاصل کی ) ایک صوفی کو کعبہ کے طواف میں مشغول پایا۔(کتاب اللمع)
حضرت حسن بصری کے زمانےمیں کسی کو صوفی کے نام سے پکارنے کا رواج اس قدر عام ہوگیا تھا کہ لوگ اس اصطلاح سے بخوبی آشنا اور مانوس ہو چکے تھے اس لیے آپ نے بے تکلفی سے کہہ دیا کہ میں نے ایک صوفی کو کعبے کا طواف کر تے ہوئے دیکھا۔
حضرت امام سفیان ثوری:
اسی دور میں ایک صاحب ِ حال بزرگ ہوئے جو امام ابو حنیفہ کے استاد بھی ہیں اور شاگرد بھی آپ اپنے وقت کے بہت بڑے متقی ، پرہیز گار ، محدث ، مورخ اور جلیل القدر امام سفیان ثوری ہیں ۔ آپ کا شمار ممتاز تابعین میں ہوتا ہے آپ کا شمار ان آئمہ میں سے ہے جو علم کا سمندر تھے آپ جو بات بھی سنتے تھے وہ آپ کو حفظ ہو جاتی آپ ۷۷ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۴۱ھ میں بصرہ میں آپ کا انتقال ہوا۔
مولانا عبد الرحمن جامی نے حضرت سفیان ثوری کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت ابو ہاشم صوفی اپنی کنیت سے مشہور ہیں ۔ شام میں آپ بہت بڑے شیخ کامل تھے اور اصل میں آپ کوفی ہیں ۱۴۱ھ میں بصرہ میں حضرت سفیان ثوری کے ساتھ تھے۔ حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگر ابو ہاشم صوفی نہ ہوتے تو میں ریاکاری کی باریک باتوں سے واقف نہ ہوتا ۔حضرت سفیان ثوری یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب تک میں نے شیخ ابو الہاشم کو نہیں دیکھا تھا مجھے پتہ نہیں تھا کہ صوفی کیسے ہوتے ہیں ہر چند کہ آپ سے پہلے ایسے بہت سے بزرگ گزرے ہیں جو زہدو تقویٰ توکل اور محبت اور مجاہدات میں باکمال اصحاب تھے لیکن یہ انفرادیت اور وصف آپ ہی کے ساتھ خاص ہیں آپ کو صوفی کہا گیا۔
پہلی خانقاہ:
شیخ ابو الہاشم صوفی نے سب سے پہلے صوفیوں کے لیے رملہ (شام)میں پہلی خانقاہ قائم کی اس کا سبب یہ تھا کہ ایک دن ایک امیر جو آتش پرست تھا شکار کے لیے باہر گیا ہوا تھا ۔ راستے میں اس نے دیکھا کہ دو شخص ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور اسی جگہ بیٹھ گئے اور جو کچھ ان کے پاس زاد راہ تھا وہ نکالا اور باہم کھانے لگے اور پھر روانہ ہوگئے امیر کو ان کا یہ باہمی خلوص اور دوستانہ بہت پسند آیا تو اس نے ان میں سے ایک سے پوچھا تمہارا دوسرا ساتھی کون تھا اس نے کہا میں نہیں جانتا۔ کیا تجھے اس سے کوئی کام تھا۔ امیر نے کہا نہیں پھر امیر نے پوچھا کہ وہ کدھر سے آرہاتھا اس نے کہا مجھے یہ بھی معلوم نہیں امیر نے کہا پھر تمہارے درمیان یہ محبت اور خلوص کیسا ۔ اس درویش نے کہا ہمارا طریقہ یہی ہے امیر نے دریافت کیا تمہارا کوئی ٹھکانہ ہے جہاں تم ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہو۔ درویش نے جواب دیا ہمارے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں ہے۔ امیر نے کہا میں تمہارے لیے ایک مکان تعمیر کروادیتا ہوںجہاں تم ایک دوسرے سے مل سکو۔ پس امیر نے ایک خانقاہ رملہ (شام) میں تعمیر کروادی۔ (نفحات الانس)
گویا سفیان ثوری جیسے بزرگ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اگر شیخ ابو الہاشم صوفی جیسے عارف کامل نہ ہوتے تو ریاکاری کے بارے میں بہت سی باریک اور پیچیدہ باتوں کو ہم نہ جان پاتے اور ان کے عرفان سے محروم رہتے ۔ سفیان ثوری وہ پہلے بزرگ تھے جنہوں نے شیخ ابو الہاشم کو صوفی کے لقب سے پکارا ان واقعات سے ثابت ہو اکہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بڑے بڑے علماء اور محدثین صوفی کے لقب سے پکارے جانے لگے تھے۔ شیخ ابوالہاشم نے رملہ (شام) کے مقام پر باقاعدہ روحانی تربیت کے لیے پہلی خانقاہ تعمیر کروائی تھی یہ گویا نبی اکرم ﷺ کی اسی سنت کی پیروی تھی کہ آپ کے زمانہ اقدس میں مسجد نبوی سے متصل ’’صفہ ‘‘کی خانقاہ صوفیاء صحابہ کی پہلی تربیت گاہ تھی جس کے معلم خود سرکار دوجہاں ﷺ تھے۔
تصوف اور شریعت سے متعلق امام مالک کا فتویٰ:
اسی دور با سعادت کے ایک نامور بزرگ امام مالک بھی ہیں جو نابغۂ روزگار ، برگزیدہ ، امام و مجتہد فقہ مالکی کے بانی ہیں آپ کا سال پیدائش باختلاف روایت ۹۳،۹۴،۹۵ ھ بتایا جاتا ہے۔اور سال وفات۱۷۹ھ ہے امام مالک نے اگرچہ زمانہ زیادہ تبع تابعین کا پایا لیکن اکتساب ِ فیض تابعین سے کیا ۔ آپ کا یہ قول مشہور عام ہے ’’ جو فقہ‘‘ میں ماہر ہوا اور تصوف سے نابلد رہا یقینا فسق کا مرتکب ہوا اور جو تصوف میں ڈوب گیا اور فقہ سے بے بہر ہ رہا وہ زندیق ہو گیا اور جس نے ( فقر و تصوف ) دونوں کو اپنے اندر جمع کر لیا وہ حقیقت کو پاگیا(ملّا علی قاری مرقاہ االمفاتیح)
امام مالک کے فرمان کی رو سے جس نے فقہ کے ظاہر ی علوم کو اپنایا لیکن تصوف کو نظر انداز کر کے اس جذبہ و محرک سے محروم رہا جو محبت الہٰی ہے اور عمل اور پھر اخلاص فی العمل کا سبب ہے وہ فسق وفجور کی راہ پر چل نکلا ۔ اس کے برعکس جس نے صرف تصوف کو اپنایا لیکن شریعت کے ظاہری احکام کو پس پشت ڈال دیا وہ ملحدوزندیق ہو گیا اور ایمان و عمل دونوں سے محروم ہو گیا۔ لیکن جس خوش نصیب نے فقہ و تصوف دونوں کو اپنی ذات میں جمع کیا یعنی شریعت کے ظاہری آداب کی بجاآوری کے ساتھ طریقت کے باطنی آداب بھی بجا لایا اس نے حق پا لیا۔اس تمام بحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ تصوف اور صوفی کا لفظ عجم سے درآمد شدہ فلسفہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس طریق پر چلنے والے بڑے بڑے جلیل القدر صوفیاء ہر دور میں موجود رہے ہیں جنہوں نے اپنی تربیت گاہیں اور خانقاہیں قائم کیں اور مخلوق خدا کی روحانی تربیت کے ذریعے عوام الناس کے نفوس کورذائل سے پاک کیا اور ان کے قلوب کو صفائے باطن کے نور سے منور کیا اور ریاء کاری جو کہ شرک خفی ہے۔ اور دنیاوی لذت و شہوات سے ہٹا کر تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب سے ان کو واصل باللہ کر دیا ۔ اصل میں یہی برگزیدہ ہستیاں وارث انبیاء ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔بزرگان دین دنیا میں منجانب اللہ پیغام امن ہیں ان کے وجود سے رحمت کا نزول ہوتا ہے اور آنے والی بلاؤں کا سدِّباب ہو تارہتا ہے۔