بادشاہِ فیض گنج
:نام و نسب
صاحبِ عالم بادشاہِ فیض گنج حضرت خواجہ سخی سلطان محمد ایوب جہانگیری قادری چشتی روحی فداہٗ راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں آپ کا خاندان نہایت معزز اور نیک ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر اور بے باک ہے اس خاندان کے اکثر لوگ فوج میں ملازم رہے ہیں ۔ مغلیہ دورِ سلطنت اور برطانیہ کے دورِ حکومت میں اس خاندان کیلئے فوج میں کوٹہ مقرر تھااور اس خاندان کے آدمیوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی تھی۔
:والدین کریمین
آپ کے والد محترم جناب میاں محمد یٰسین خاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ نہایت معزز نیک سیرت تہجدگزار پابند صوم و صلوٰۃ اور طریقت میں سلسلہ قادری سے نسبت رکھتے تھے ۔ نہایت عمدہ اخلاق کے مالک تھے اور بچوں سے نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ جنابہ کلثوم صاحبہ رام پور اسٹیٹ کے جاگیردار راؤ سلطان خاں کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کی والدہ محترمہ نہایت نیک دل اور خدا رسیدہ خاتون اور بچپن ہی سے پابند صوم و صلوٰۃ تھیں۔ آپ کے والدین کریمین کی عظمت و شرافت اور بزرگی کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
:پیدائش
ہمارے حضرت قبلہ و کعبہ سیدی و مرشدی و مولائی خواجہ محمد ایوب جہانگیری دامت برکاتہم العالیہ نے ارشاد فرمایاکہ ہم ایک دن شجرہ شریف تلاوت فرما رہے تھے جب ہم سید امداد علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے نام مبارک پر پہنچے تو والد بزرگوار ؒ نے مسکرا کر فرمایا کہ بیٹے کیا ان بزرگوں کی جگہ بھی شجرہ شریف میں درج ہے۔ تو میں نے بتایا کہ موضع قاضی ولی چک ضلع بھاگلپور صوبہ بہار لکھا ہوا ہے۔ اس پر والد بزرگوار رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں اس آستانہ عالیہ میں اکثر حاضری دیا کرتا تھا۔ایک روز کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ ان بزرگوں سے اولاد کیلئے دعا کیوں نہیں کراتے کیونکہ اس وقت تک ہمارے ہاں کوئی اولاد نہ تھی پھر میں نے اس آستانہ عالیہ کے سجادہ نشین صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے دعا کیلئے عرض کی کہ حضرت اب تو میری مونچھوں میں سفید بال آنے شروع ہوگئے ہیں اور ابھی تک اولاد نہیں ہوئی دعا فرمائیے۔ تین بار عرض کرنے پر انہوں نے فرمایا کہ آپ کے ہاں پانچ اولادیں ہونگی جن میں تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہونگی اور انہیں کوئی مردِ حق مل جائیگا ۔ ان بزرگوں کی دعا سے حسبِ ذیل اولاد پیدا ہوئی۔
۱۔ جناب ڈاکٹر عبد العزیز صاحب قادری چشتی رحمتہ اللہ علیہ
۲۔ جناب ڈاکٹر عبد الواحد صاحب نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ
۳۔ جناب حضرت خواجہ سلطان محمد ایوب صاحب قادری چشتی ابو العلائی جہانگیری مدظلہ العالی
۴۔ جنابہ زیتون صاحبہ
۵۔ جنابہ خاتون صاحبہ
:بشارت
آپ کے والد محترم جناب محمد یٰسین خاں صاحب قادری رحمتہ اللہ علیہ رمضانی بی ایم پی (بہار ملٹری پولیس) میں ملازم تھے۔ ایک دن آپ رحمتہ اللہ علیہ ڈیوٹی پر کھڑے تھے کہ ایک بزرگ جناب سید مستان شاہ صاحب آپ کو نظر آئے انہوں نے فرمایا یٰسین خاں ادھر آو میں بھاگلپور سے آیا ہوں اور کلکتے جا رہا ہوں اور آج شام کا کھانا آپ کے گھر ہوگا۔ آپ ڈیوٹی سے گھر آئے اور ان بزرگ صاحب کے کھانے کا بندوبست فرمایا۔ شام کو وہ بزرگ صاحب تشریف لے آئے اور بتایا کہ میں روحانیت کی ڈیوٹی کر کے آ رہا ہوں۔ مجھے حکم ہوا تھا کہ اس گھر سے کھانا کھاؤں کلثوم میری بیٹی ہے یہ بہت نیک اور صالح خاتون ہے اس لیے اسکے ہاتھ کا کھانا کھانے کا مجھے حکم ہواہے اور فرمایا کہ آپ کے ہاں جو تیسرا لڑ کا ہو گا وہ بہت صالح ہو گا اسے میرے پاس لانا اتنے میں ان بزرگ صاحبؓ کے پاس لوگو ں کا ایک ہجوم لگ گیا اور لوگ انکے فیض سے مستفیض ہوئے۔ ایک عورت جو کہ بے ہوش تھی ان بزرگ صاحب کے پاس لاتے ہی ہوش میں آگئی۔
:مولدو مسکن
پ کے والد بزرگوار بہار ملٹر ی پولیس ضلع بھاگلپور صوبہ بہار کے کواٹرز میں رہائش پذیر تھے۔ اسی مقام پر آپ کی پیدائش بروز پیر28اکتوبر 1935ء بمطابق ذیقعدہ 1355ھ ہجری ضلع روہتک صوبہ مشرقی پنجاب ہندوستان میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان بننے پر آپ کے والدین کریمین سرگودھا میں تشریف لے گئے وہاں پر مختصر قیام کے بعد موضع ہندال نزد کوٹ رادھاکشن میں چندروز قیام فرمایا اسکے بعد کوٹ رادھا کشن ضلع قصور میں مستقل رہائش اختیار فرمالی۔
:تعلیم
آپ نے ابتدائی تعلیم جماعت چہارم تک ڈیری اون سون ضلع سہ سرام سکول (انڈیا) میں حاصل کی اور دینی تعلیم کسی مدرسہ سے باقاعدہ طور پر حاصل نہیں کی ۔ باوجود اسکے کہ آپ کسی مکتب سے فارغ التحصیل نہیں ہیں مگر جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا ہے تو آپ قرآن و سنت کی روشنی میں ایسا شافی جواب عطا فرماتے ہیں کہ سننے والے حیرت زدہ ہو جاتے ہیں ۔ آپ کے حلقہ ارادت میں بڑے بڑے پرنسپل پروفیسر اور لیکچرار بلکہ علمائے دین اور مشائخ بھی شامل ہیں اور آپ ایسے نکات بیان فرماتے ہیںکہ بڑےبڑے فصحاء انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں اور آپکی قابلیت و ذہانت اور خداداد تبّحر علمی کے معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بعض اوقات کئی پیر صاحبان اور علمائے کرام تجربہ کیلئے آجاتے ہیں اور بڑے بڑے دقیق مسائل پوچھتے ہیں آپ ایسے انداز سے بیان فرماتے ہیںکہ ان پڑھ آدمی بھی بآسانی سمجھ جاتا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے علم لدّنی عطا فرمایا گیا ہے۔
:ملازمت
آپ 27اکتوبر 1956ءکو پاکستان آرمی میں آرمڈ کور سنٹر نوشہرہ کینٹ ضلع پشاور میں بھرتی ہوئے ٹریننگ کرنے کے بعد11کیولری میں چلے گئے بعد میں لاہور میں24کیولری بنائی گئی تو آپ کو اس میں بھیج دیا گیا۔ فوج میں آپ نے 1965ءمیں کھیم کرن بارڈر پر پاک بھارت جنگ میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے اور 1971ءکی لڑائی میں گوجرانوالہ کے نزدیک باغ میں قیام رہا جنگ میں شامل نہیں ہونے دیا گیا۔آرمی کی ملازمت سے بے مثال (Exemplarly) کاکریکٹر سرٹیفکیٹ ملااور دو بار تمغہ ِحرب سے بھی نوازا گیا
:حلیہ مبارک
آپ کا قد مبارک درمیانہ ، فراخ سینہ، سڈول جسم ، گندمی رنگ، ریش مبارک گھنی اور کشادہ سنت کے عین مطابق آپ اسے مولائی داڑھی فرماتے ہیں یعنی حضرت مولا علی کی داڑھی مبارک کے مشابہ آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے سلسلے کے تمام بزرگوں کو دیکھا ہے سب حضرات کی داڑھی مبارک کو ایسا ہی پایا ہے شرابِ محبت سے مخمور آنکھیں عشق و مستی کا پیغام دیتی ہیں ۔ عنبریں زلفیں نہایت دلکش اور حسین چہرہ ۔ جو بھی عقیدت و محبت سے دیکھتا ہے گرویدہ ہو جاتا ہے ۔ بعض لوگ آپ کی تصویر مبارک کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ واقعی یہ مردِ خدا بلکہ بعض نے شیر خدا کا چہرہ کہا۔ اور معترف ہوئے کہ جب آپ کی تصویر میں اتنی کشش ہے تو پھر ضرور آپ کی ذات مقدس مظہر جمال خدا ہوگی۔ آپ کے چہرہ مبارک پر جب نور جلال کا ظہور ہوتا ہے تو کسی کی نگاہ نہیں ٹھہرتی اور نہ ہی تاب لا سکتی ہے بلکہ کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
پھرے زمانے میں چار جانب نگارِ یکتا تمہیں کو دیکھا
حسین دیکھے جمیل دیکھے لیک تم سا تمہیں کو دیکھا
حسین دیکھے جمیل دیکھے لیک تم سا تمہیں کو دیکھا
:بیعت
حضرت خواجہ پیر غلام محمد شاہ صاحب جلوہ نما اولیاء 1959ء میں موضع پتوکی میں اپنے ایک خلیفہ صاحب کے ہاں تشریف فرما ہوئے تو آپ کے بھائی واجد علی جو کہ پہلے ہی جلوہ نما اولیاء سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے ارادتمندان میں سے تھے آپ کو ہمراہ لے کر پتوکی میں حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی حضور انہیں اپنی غلامی میں قبول فرمالیں جلوہ نما الاولیاء سرکار رحمتہ اللہ علیہ آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کیا آرمی میں سروس کرتے ہو عرض کی جی حضور ! ارشاد ہوا فقیری کا قانون آرمی سے بھی سخت ہوتا ہے کیا اس پر چل سکو گے ۔ سوچ لو۔۔۔!
اس عشق کی منزل میں قدم سوچ کے رکھنا
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے
بڑئے بھائی صاحب نے دوبارہ عرض کی حضور کرم فرمایا جائے اور غلامی میں قبول فرمایا جائے اس پر جلوہ نما اولیاء سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا دست مبارک بڑھا دیا اور فرمایا کہ مضبوطی سے تھام لو یہی وہ رسی ہے جسے تھام کر اللہ تک پہنچا جاتا ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا ۔اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اتنے میں آپ کو کیفیت طاری ہوگئی آپ فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ پیرو مرشد نے کیا پڑھایا مجھے جب ہوش آیا تو میں رو رہا تھا۔پیر و مرشد نے ذکر و فکر اور تصورِ شیخ کے بارے میں ہدایات فرمائیں۔ بیعت کے بعد ذکر و فکر میں ایسے مشغو ل ہو گئے کہ دورانِ ملازمت کسی سے بات کرنے کو دل نہ چاہتا تھا۔ ہر وقت محویت اور استغراق رہتا۔
دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے