شیخ کے آداب
مرید پر واجب ہے کہ ظاہر میں اپنے شیخ کی مخالفت نہ کرے اور باطن میں اس پر اعتراض نہ کرے کیونکہ گناہ کرنے والا ظاہر میں ادب کا تارک ہوتا ہے اور دل سے اعتراض کرنے والا اپنی ہلاکت کے پیچھے پڑتا ہے بلکہ مُرید کو چاہیے کہ شیخ کی حمایت میں ہمیشہ کے لیے اپنے نفس کا دشمن بن جائے۔ شیخ کی ظاہری اور باطنی طور پر مخالفت سے اپنے آپ کو روکے اور نفس کو جھڑک دے۔ اگر سالک اپنے شیخ کو غضب ناک پائےاور اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات دیکھے تو اس سے تعلق ختم نہ کرے بلکہ اپنے باطن کی کھوج لگائے ۔ شیخ کے حق میں جو بے ادبی یا کوتاہی ہوتومرید کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر قیامت تک اللہ تعالیٰ کی عادت کریمہ جاری ہے کہ زمین میں شیخ بھی ہو مرید بھی، صاحب اقتدار بھی اور ماتحت بھی۔ تابع اور مبتوع بھی ، کیاتم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیدا فرمایا تو انہیں تمام چیزوں کے نام سکھائے اور آغاز کا راسی کے ساتھ ہوا انہیں بادشاہ کے ساتھ شاگرد اور شیخ کے ساتھ مرید کی طرح کردیااور فرمایا اے آدم ؑ ! یہ گھوڑا ہے یہ خچر ہے ، یہ گدھا ہے حتیٰ کہ ان کو بڑے اور چھوٹے پیالے کا نام بھی سکھایا اور جب ان کی تعلیم و تربیت مکمل ہوگئی تو ان کو استاذ ، معلم ، شیخ اور حکیم بنا دیا۔ طرح طرح کے لباس اور زیورات سے آراستہ کیا ۔ قوت گویائی عطا فرمائی اور جنت میں کرسی پر بٹھا کر فرشتوں کو ان کے گرد صفوں کی صورت میں کھڑا کیا اور جب فرشتے چیزوں کا نام بتانے سے عاجز رہے ان کو علم نہ ہو سکااور انہوں نے عرض کیا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا تو فرمایا اے آدمؑ ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتائیں تو گویا فرشتے آدم ؈کے شاگرد اور آپ ان کے استادہوئے ۔ حضرت آدم ؈ نے ان کو تمام چیزوں کے نام بتا دیے جس طرح قرآن پاک میں آیا ۔ اس سے فرشتوں پر ان کی فضیلت ظاہر ہوگئی اور وہ اللہ تعالیٰ نیز فرشتوں کے نزدیک اشرف قرار پائے۔ حضرت آدم ؈ متبوع اور فرشتے ان کے تابع اور فرمانبردار بنے۔