اسلام
دنیامیں تقریباً ساڑھے سات ارب لوگ بستے ہیں اور یہ تمام لوگ ایک دوسرے سے رنگ، نسل،تہذیب، اور لسانیت کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں کی صورت میں مقیم ہیں۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ لوگوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر بھی تقسیم کیا جا سکتا ہےاور عقیدے کی بنیاد پر کچھ فیصد لوگوں کے علاوہ تمام لوگ کسی نہ کسی مذھب کو ماننے والے ہیں۔ ان مذاہب کو مد نظر رکھتے ہوے یہ لوگ ہندو،سکھ،عیسائی،بدھ مت،یہودی اور مسلمان کہلاتے ہیں۔
مسلمان کون ہے؟ لوگوں کا وہ گروہ جو عقیدے کی بنیاد پرمذہب اسلام کا پیروکار ہے اسے مسلمان کہتے ہیں اوراردو لغط میں لفظ مسلمان کا مطلب تابعدار اور مطیع ہے۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان مذہب اسلام میں کس چیز کا تابعدار اور کس کی اطاعت کرتا ہے؟ اس کے لئے ہمیں مذہب اسلام کے بارے میں جاننا پڑے گا۔
اسلام کے معنی
لفظ اسلام کے معنی امن،صلح اور سلامتی کے ہیں۔ یہ نام اللہ تعالیٰ نے تجویز فرمایا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَامََ( آل عمران)
ترجمہ: اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کیا۔ تحقیق خدا کے نزدیک (سچا) دین اسلام ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اسی طرح اس نام کے پسند فرمانے میں بھی دنیا میں امن اور سلامتی کو تقویت دینا مقصود تھا۔
اسلام کی ضرورت
دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کی بنیاد الہامِ الٰہی پر ہے۔ عرصہ دراز گزرنے کے بعد ان مذاہب مہں کئی غلطیاں شامل ہو گئیں اور حق اور باطل میں تفریق مشکل ہو گئی۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ َ(البقرۃ 79)
ترجمہ: افسوس ہے ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
سچ اور جھوٹ کے اس فرق کو ختم کرنے کے لئے کسی ایسے مذہب کی ضرورت تھی جو دائمی، مکمل اور کسی بھی شبہ سے پاک ہو۔ ایسے میں اللہ پاک نے اپنے بندہِ محترم نبی آخرالزّماں حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے زریعے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچایا جو کہ ایک کتاب قرآن پاک کی صورت میں آہستہ آہستہ وحی کی صورت میں حضرت محمد مصطفٰی ﷺ پر نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اسے ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِْسْلَامَ دِیْنًاَ(المائدۃ3)
ترجمہ: آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لیے پسند کر لیا۔
اسلام کو اس لیے مکمل ضابطہ حیات قرار دیا گیا ہے کیونکہ اسلام نے وہ تمام سچائیاں بیان کی ہیں جو حضرت محمد مصطفٰی ﷺ سے پہلے نبیوںؑ نے مقامی یا زمانی وجوہات کی بنا پر اور نوعِ انسان کے ابتدائی حالات کی وجہ سے بیان نہیں کیں۔
قرآن پاک کے دائمی اور کسی شبہ سے پاک ہونے کا اللہ تبارک تعالیٰ نے کیا خوب انتظام فرمایا کہ اس کلام پاک کی حفاظت کی ذمہ داری خود اپنے ذمے لی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لٰہٗ لَحٰفِظُوْنَّ (الحجر 9)
ترجمہ: بیشک ہم نے ہی یہ ذکر (قرآن) نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
قرآن کے نزول کے وقت ہی سے آپ ﷺ اسے لکھوا رہے تھے اور یہ سلسلہ آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بھی جاری رہا۔ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق نے قرآن کو مکمل کتاب کی صورت میں محفوظ کیا جسے بعد میں آپ ﷺ کے تیسرےخلیفہ حضرت عثمان نے پوری دنیا تک قرآن کے نسخوں کو پھیلایا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک کے قرآن کے تمام نسخوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خالقِ کائنات نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور جس چیز کی حفاظت کا ذمہ خالقِ کائنات نے خود لیا ہو تو اُس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔
اسلام بحیثیتِ دینا اسلام بحیثیتِ دین
نبی کا کام صرف اتنا نہیں ہوتا کہ وہ حقیقت کا علم لوگوں تک پہنچائے بلکہ اس کا کام یہ بھی بتانا ہوتا ہے کہ اس علم کے مطابق خدا اور اُس کے بندے کے درمیان عملاً کیسا تعلق ہونا چاہیے۔ یہ علم کِن عقائد،عبادات، اخلاقیات اور تہذیب و تمدّن کا تقاضا کرتا ہے۔ نبی صرفایک نظامِ عبادت لے کر نہیں آتا جسے دنیاوی اصطلاح میں مذہب کہتے ہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی لے کر آتا ہے جس پر وہ خود عمل کر کے دکھاتا ہے جسے دین کہا جاتا ہے۔ اسلام ایک ایسا نظام ہے جو زندگی کے ہر ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے اور جس پر خود حضرت محمد ﷺ نے عملی مظاہرہ کر کے دکھایا اس لیے اسلام دین کہلاتا ہے۔دین اسلام کے پانچ ارکان ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔ یہ گواہی دیناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کےآخررسول ہیں( یعنی کلمہ طیبہ پڑھنا ) اور نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ ادا کرنا ، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔(صحیح بخاری)
حدیث میں ہے! حضرت سمرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : نماز قائم کرو ، زکوٰۃ ادا کرو، حض اور عمرہ ، استقامت اختیار کرو، تمہیں استقامت دی جائے گی۔(سنن ابن ماجہ)
حدیث: حضرت ابو درداء ؓ نے بیان فرمایا! کہ حضور ﷺ نے فرمایا! پانچ کام ایسے ہیں جنہیں جو شخص بھی ایمان کی حالت میں سر انجام دے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا جو شخص وضو، رکوع، سجوداور اقات کا خیال رکھ کر پانچ وقت کی نماز کی پابندی کر اور رمضان کے روزے رکھے اگر استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے اور زکوٰۃ ادا کر کے اپنے نفس کی پاکیزگی کا سامان کرے اور امانت ادا کرے۔