اللہ کے ذکر کی اہمیت
ذکرِ الٰہی انوار کی کنجی ہے، بصیرت کا آغاز ہے اور جمال فطرت کا اقرار ہے۔ یہ حصول علم کا جال ہے۔ یہ تماشہ گاہ ہستی کی جلوہ آرائیوں اور حسن آفرینیوں کا اقرار ہے۔ ذاکر کے ذکر میں زاہد کے فکر میں خالق ِ آفاق کی جھلک نظر آتی ہے۔ ذکر الٰہی دراصل خالق حقیقی سے رابطے کی ایک شکل ہے۔سورۃ عنکبوت کی آیت45میں ارشاد ربانی ہے۔
اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرگ تر ہے“۔
اللہ کے ذکر میں نماز، نوافل۔ تلاوت ِ قرآن حکیم، دُعا۔ تسبیح۔ ثناء۔ تہلیل اور استغفار سب شامل ہیں۔ بقول حافظ ابن القیم (بحوالہ مدارج السالکین) ذکر اللہ کی بڑی عظمت، اہمیت اور برکات ہیں۔ ذکر اللہ سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ ذکر ِ اللہ سے قلوب منور ہو جاتے ہیں۔ ذکرِ اللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جس کے ذریعے ایک بندہ بارگاہ الٰہی تک پہنچ سکتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے
(( یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنوا اِذَا لَقِیتُم فِئَۃً فَاثبُتُوا وَاذکُرُوا اللّٰہَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُم تُفلِحُونَ) ( الانفال : 53 )
” اے ایمان والو ! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو ۔ “
ذکر کثیر کے متعلق متفرق مقامات پر اللہ کریم نے ذکر فرمایا ہے :
(( وَاذکُرنَ مَا یُتلٰی فِی بُیُوتِکُنَّ مِن اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالحِکمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا )) ( الاحزاب : 34 )
” اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقینا اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے ۔ “
مزید ارشاد فرمایا :
(( وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا )) ( الاحزاب : 35 )
” بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان ( سب کے ) لیے اللہ تعالیٰ نے ( وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ “
فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا
’’اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدت شوق سے (اللہ کا) ذکر کیا کرو‘‘۔
البقره، 2 : 200
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا.
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے‘‘۔
البقرہ114:2
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو‘‘۔
الاحزاب، 33 : 41
ذکرِ الہٰی اطمنانِ قلب کا ذریعہ
اَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
’’جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
الرعد، 13 : 28
مانعین ذکر پر رزق کی تنگی
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى
’’اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے‘‘۔
طہ124:20
امام بیہقی رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: ” انسان پر جو گھڑی خالی گزری وہی قیامت کو حسرت کا موجب ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” جب بھی اور جہاں بھی کچھ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت ِ الٰہی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے مقربین فرشتوں میں ان کا ذکر کرتے ہیں (صحیح مسلم)
بخاری شریف میں بحوالہ حضرت ابو ہریرہ ؓ درج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو اس وقت مَیں اپنے اس بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں“۔
حضرت ابو الدرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” کیا مَیں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور اللہ کی راہ میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیر ہے اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے، جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارو اور وہ تمہیں ذبح کریں اور شہید کریں؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا:ہاں یا رسول اللہﷺ ! ایسا قیمتی عمل ضرور بتایئے! آپ نے فرمایا:وہ اللہ کا ذکر ہے“۔ (بحوالہ جامع ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
” اس دُنیا کی وہ تمام چیزیں جن پر سورج کی روشنی اور اس کی شعاعیں پڑتی ہیں، ان سب چیزوں کے مقابلے میں مجھے یہ زیادہ محبوب ہے کہ مَیں ایک بار سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہوں“
سوکھے پتوں والے درخت کی مثال: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کے پتے سوکھ چکے تھے۔ آپ نے اس پر اپنا عصا مبارک مارا تو اس کے سوکھے پتے جھڑ پڑے۔ پھر آپ ؓ نے فرمایا:
” یہ کلمے:سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر بندے کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح تم نے اس درخت کے پتے جھڑتے دیکھے“ (جامع ترمذی)
قرآن حکیم میں بھی ارشاد ہے
”یقینی بات ہے کہ نیکیاں گناہوں کا صفایا کر دیتی ہیں“۔
اگر ریت کے ذرات کے برابر بھی گناہ ہوں تو ذکر الٰہی سے معاف ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جس نے روزانہ سو بار سبحان اللہ وبحمدہ کہااس کے قصور معاف کر دیئے جائیں گے اگرچہ کثرت میں سمندر کی جھاگوں کے برابر ہوں“۔ (صحیح مسلم و بخاری)
حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کلاموں میں کون سا کلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ کے لئے منتخب فرمایا، یعنی سبحان اللہ وبحمدہ۔ (صحیح مسلم)
سب سے افضل ذکر: حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے“۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”جو بندہ دل کے اخلاص سے لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے لازماً آسمانوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ عرشِ الٰہی تک پہنچے گا۔ بشرطیکہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے“۔
ترمذی شریف میں ایک اور حدیث ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”کلمہ لا الہ الا اللہ کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔ یہ کلمہ سیدھا اللہ کے پاس پہنچتا ہے“۔
حضرت شاہ ولی اللہ اپنی شہر آفاق کتاب (حجتہ اللہ البالغہ) میں ارشاد فرماتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کے تین خواص ہیں:
٭…. یہ کلمہ شرکِ جلی کو ختم کرتا ہے۔
٭…. یہ کلمہ شرکِ خفی کو بھی ختم کرتا ہے۔
٭…. یہ کلمہ حصول ِ معرفت اور قرب ِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
امام بغوی ؒ (شرح السنہ) میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ اے میرے رب مجھ کو کوئی کلمہ تعلیم فرما، جس کے ذریعے مَیں ترا ذکر کروں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسی ٰلا الہ الا اللہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب! یہی کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں،مَیں تو وہ کلمہ چاہتا ہوں جو آپ خصوصیت سے مجھے ہی بتائیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کہ اے موسی علیہ السلام! اگر ساتوں آسمان اور میرے سوا وہ سب کائنات جس سے زمین کی آبادی ہے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اورلا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں،لا الہ الا اللہ کا وزن ان سب سے زیادہ ہو گا“۔
حضور اکرم کی عادات مبارکہ:دوام ذکر الٰہی
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ ہر لحظہ اور لمحہ اللہ کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔ ابن ماجہ میں لکھا ہے کہ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ رات کو آپ کے آستانہ اقدس پر پہرہ دیتے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی تسبیح اور تہلیل کی آواز سنتے سنتے میں تھک جاتا تھا اور مجھے نیند آ جاتی تھی۔ بقول علامہ شبلی نعمانی ؒ اور علامہ سید سلیمان ندوی ؒ (سیرت النبی :جلد سوم) صفحہ158):
”اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے، جاگتے، وضو کرتے، نئے کپڑے پہنتے، سوار ہوتے، سفر میں جاتے، واپس آتے، گھر میں داخل ہوتے، مسجد میں قدم رکھتے، غرض ہر حالت میں دل و جان ذکر الٰہی میں مصروف رہتے“۔
آپ سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل ادا فرماتے۔ سواری کا جانور جدھر چل رہا ہے آپ ادھر ہی چہرہ مبارک نماز کی نیت فرما لیتے۔ اس کی پرواہ نہیں فرماتے تھے کہ قبلہ کی طرف رُخ ِ مبارک ہے یا نہیں۔ آپ میدانِ جنگ میں بھی یاد الٰہی سے غافل نہیں تھے۔ بدر کے غزوہ میں خشوع و خضوع سے دونوں ہاتھ پھیلا کر بارگاہِ ایزدی میں دُعا کر رہے تھے۔ اس بے خودی کے عالم میں ردائے مبارک کندھے سے گر پڑی اور حضور کو خبر تک نہیں۔ حضرت علی ؓ تین بار میدان جنگ میں حاضر ہوتے ہیں اور ہربار یہ دیکھتے ہیں کہ پیشانی مبارک زمین پر ہے۔
دور حاضر کی بے سکونی اور ذکر الٰہی: دورِ حاضر میں بے سکونی کی کیفیت ذکر الٰہی سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اہل مغرب کے ہاں خود کشیاں روحانیت سے فرار کی وجہ سے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی بے سکونی یاد الٰہی سے غفلت کی و جہ سے ہے۔ نت نئی جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں یادِ الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلا شبہ ذکر الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلاشبہ ذکر الٰہی دلوں کو سکون بخشتا ہے۔
حافظ ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ نے ذکر الٰہی کے بہت سے فوائد اپنی کتاب ذکر الٰہی میں تحریر فرمائے ہیں جنہیں انتہائی اختصار کے ساتھ قارئین کرام کی نظر کیا جاتا ہے ۔ ذکر الٰہی شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ راضی ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی غموں اور پریشانیوں کا علاج ہے ، ذکر الٰہی سے دل میں مسرت اور خوشی پیدا ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے بدن کو تقویت ملتی ہے ، ذکر الٰہی سے انابت ( رجوع الی اللہ ) حاصل ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے تقرب الٰہی حاصل ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ساتھ ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ عزوجل آسمانوں میں ذاکر کا تذکرہ کرتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے دل کا زنگ اتر جاتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا جن کلمات سے ذکر کرتا ہے وہی اذکار مصائب و آلام اور تکلیف کے وقت اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں ۔ ذکر الٰہی سے اللہ تنگدستیاں دور فرما دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے دل کو قرار اور اطمینان نصیب ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے ، ذکر الٰہی کی مجالس فرشتوں کی مجلسیں ہوتی ہیں ، ذکر الٰہی سے ذاکر نیک اور سعید ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن حسرت سے مامون رہے گا ، ذاکر کو ذکر الٰہی کی برکت سے وہ نعمتیں مل جاتی ہیں جو مانگ کر لینے سے بھی نہیں ملتیں ، ذکر الٰہی تمام تر عبادات سے آسان اور افضل ہے ، ذکر الٰہی سے جنت میں درخت
لگتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دنیا میں بھی نور قبر میں بھی نور ، آخرت میں بھی نور حاصل ہو گا ۔ ذکر الٰہی سے دل بیدار رہتا ہے ، ذکر الٰہی قرب خداوندی اور معیشت الٰہی کا ذریعہ ہے ، ذکر الٰہی صدقہ و جہاد سے افضل ہے ، ذکر راس الشکر ہے ، ذکر الٰہی سے دل کی قساوت نرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے ، ذکر الٰہی محبت الٰہی کا حصول ہے ، ذکر الٰہی ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے جو مزید نعمت کا باعث ہے ، ذکر الٰہی اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤ ں کا موجب ہے ، مجالس ذکر جنت کے باغات ہیں ، مجالس ذکر فرشتوں کی مجلسیں ہیں ، اہل ذکر سے اللہ تعالیٰ ملائکہ میں فخر فرماتے ہیں ، ذکر الٰہی پر ہمیشگی کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں جائے گا ۔ ( قول ابودرداء رضی اللہ عنہ)
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا ، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض جملہ عروسی میں جانے کی دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر بے رہبر و نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے۔
ذکرِ الٰہی انوار کی کنجی ہے، بصیرت کا آغاز ہے اور جمال فطرت کا اقرار ہے۔ یہ حصول علم کا جال ہے۔ یہ تماشہ گاہ ہستی کی جلوہ آرائیوں اور حسن آفرینیوں کا اقرار ہے۔ ذاکر کے ذکر میں زاہد کے فکر میں خالق ِ آفاق کی جھلک نظر آتی ہے۔ ذکر الٰہی دراصل خالق حقیقی سے رابطے کی ایک شکل ہے۔سورۃ عنکبوت کی آیت45میں ارشاد ربانی ہے۔
اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرگ تر ہے“۔
اللہ کے ذکر میں نماز، نوافل۔ تلاوت ِ قرآن حکیم، دُعا۔ تسبیح۔ ثناء۔ تہلیل اور استغفار سب شامل ہیں۔ بقول حافظ ابن القیم (بحوالہ مدارج السالکین) ذکر اللہ کی بڑی عظمت، اہمیت اور برکات ہیں۔ ذکر اللہ سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ ذکر ِ اللہ سے قلوب منور ہو جاتے ہیں۔ ذکرِ اللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جس کے ذریعے ایک بندہ بارگاہ الٰہی تک پہنچ سکتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے
(( یاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنوا اِذَا لَقِیتُم فِئَۃً فَاثبُتُوا وَاذکُرُوا اللّٰہَ کَثِیرًا لَّعَلَّکُم تُفلِحُونَ) ( الانفال : 53 )
” اے ایمان والو ! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو ۔ “
ذکر کثیر کے متعلق متفرق مقامات پر اللہ کریم نے ذکر فرمایا ہے :
(( وَاذکُرنَ مَا یُتلٰی فِی بُیُوتِکُنَّ مِن اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالحِکمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا )) ( الاحزاب : 34 )
” اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقینا اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے ۔ “
مزید ارشاد فرمایا :
(( وَالذَّاکِرِینَ اللّٰہَ کَثِیرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُم مَّغفِرَۃً وَّاَجرًا عَظِیمًا )) ( الاحزاب : 35 )
” بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان ( سب کے ) لیے اللہ تعالیٰ نے ( وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ “
فَاذْكُرُواْ اللّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا
’’اللہ کا خوب ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے باپ دادا کا (بڑے شوق سے) ذکر کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ شدت شوق سے (اللہ کا) ذکر کیا کرو‘‘۔
البقره، 2 : 200
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا.
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے‘‘۔
البقرہ114:2
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو‘‘۔
الاحزاب، 33 : 41
ذکرِ الہٰی اطمنانِ قلب کا ذریعہ
اَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
’’جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
الرعد، 13 : 28
مانعین ذکر پر رزق کی تنگی
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى
’’اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے‘‘۔
طہ124:20
امام بیہقی رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: ” انسان پر جو گھڑی خالی گزری وہی قیامت کو حسرت کا موجب ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” جب بھی اور جہاں بھی کچھ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت ِ الٰہی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے مقربین فرشتوں میں ان کا ذکر کرتے ہیں (صحیح مسلم)
بخاری شریف میں بحوالہ حضرت ابو ہریرہ ؓ درج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو اس وقت مَیں اپنے اس بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں“۔
حضرت ابو الدرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
” کیا مَیں تم کو وہ عمل بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور اللہ کی راہ میں سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی زیادہ اس میں خیر ہے اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لئے اس میں خیر ہے، جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارو اور وہ تمہیں ذبح کریں اور شہید کریں؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا:ہاں یا رسول اللہﷺ ! ایسا قیمتی عمل ضرور بتایئے! آپ نے فرمایا:وہ اللہ کا ذکر ہے“۔ (بحوالہ جامع ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
” اس دُنیا کی وہ تمام چیزیں جن پر سورج کی روشنی اور اس کی شعاعیں پڑتی ہیں، ان سب چیزوں کے مقابلے میں مجھے یہ زیادہ محبوب ہے کہ مَیں ایک بار سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہوں“
سوکھے پتوں والے درخت کی مثال: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کے پتے سوکھ چکے تھے۔ آپ نے اس پر اپنا عصا مبارک مارا تو اس کے سوکھے پتے جھڑ پڑے۔ پھر آپ ؓ نے فرمایا:
” یہ کلمے:سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر بندے کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح تم نے اس درخت کے پتے جھڑتے دیکھے“ (جامع ترمذی)
قرآن حکیم میں بھی ارشاد ہے
”یقینی بات ہے کہ نیکیاں گناہوں کا صفایا کر دیتی ہیں“۔
اگر ریت کے ذرات کے برابر بھی گناہ ہوں تو ذکر الٰہی سے معاف ہو جاتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جس نے روزانہ سو بار سبحان اللہ وبحمدہ کہااس کے قصور معاف کر دیئے جائیں گے اگرچہ کثرت میں سمندر کی جھاگوں کے برابر ہوں“۔ (صحیح مسلم و بخاری)
حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کلاموں میں کون سا کلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ کے لئے منتخب فرمایا، یعنی سبحان اللہ وبحمدہ۔ (صحیح مسلم)
سب سے افضل ذکر: حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے“۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”جو بندہ دل کے اخلاص سے لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے لازماً آسمانوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ یہاں تک کہ وہ عرشِ الٰہی تک پہنچے گا۔ بشرطیکہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے“۔
ترمذی شریف میں ایک اور حدیث ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”کلمہ لا الہ الا اللہ کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔ یہ کلمہ سیدھا اللہ کے پاس پہنچتا ہے“۔
حضرت شاہ ولی اللہ اپنی شہر آفاق کتاب (حجتہ اللہ البالغہ) میں ارشاد فرماتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کے تین خواص ہیں:
٭…. یہ کلمہ شرکِ جلی کو ختم کرتا ہے۔
٭…. یہ کلمہ شرکِ خفی کو بھی ختم کرتا ہے۔
٭…. یہ کلمہ حصول ِ معرفت اور قرب ِ الٰہی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
امام بغوی ؒ (شرح السنہ) میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ اے میرے رب مجھ کو کوئی کلمہ تعلیم فرما، جس کے ذریعے مَیں ترا ذکر کروں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسی ٰلا الہ الا اللہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب! یہی کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں،مَیں تو وہ کلمہ چاہتا ہوں جو آپ خصوصیت سے مجھے ہی بتائیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کہ اے موسی علیہ السلام! اگر ساتوں آسمان اور میرے سوا وہ سب کائنات جس سے زمین کی آبادی ہے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اورلا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں،لا الہ الا اللہ کا وزن ان سب سے زیادہ ہو گا“۔
حضور اکرم کی عادات مبارکہ:دوام ذکر الٰہی
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ ہر لحظہ اور لمحہ اللہ کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔ ابن ماجہ میں لکھا ہے کہ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ رات کو آپ کے آستانہ اقدس پر پہرہ دیتے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی تسبیح اور تہلیل کی آواز سنتے سنتے میں تھک جاتا تھا اور مجھے نیند آ جاتی تھی۔ بقول علامہ شبلی نعمانی ؒ اور علامہ سید سلیمان ندوی ؒ (سیرت النبی :جلد سوم) صفحہ158):
”اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے، جاگتے، وضو کرتے، نئے کپڑے پہنتے، سوار ہوتے، سفر میں جاتے، واپس آتے، گھر میں داخل ہوتے، مسجد میں قدم رکھتے، غرض ہر حالت میں دل و جان ذکر الٰہی میں مصروف رہتے“۔
آپ سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل ادا فرماتے۔ سواری کا جانور جدھر چل رہا ہے آپ ادھر ہی چہرہ مبارک نماز کی نیت فرما لیتے۔ اس کی پرواہ نہیں فرماتے تھے کہ قبلہ کی طرف رُخ ِ مبارک ہے یا نہیں۔ آپ میدانِ جنگ میں بھی یاد الٰہی سے غافل نہیں تھے۔ بدر کے غزوہ میں خشوع و خضوع سے دونوں ہاتھ پھیلا کر بارگاہِ ایزدی میں دُعا کر رہے تھے۔ اس بے خودی کے عالم میں ردائے مبارک کندھے سے گر پڑی اور حضور کو خبر تک نہیں۔ حضرت علی ؓ تین بار میدان جنگ میں حاضر ہوتے ہیں اور ہربار یہ دیکھتے ہیں کہ پیشانی مبارک زمین پر ہے۔
دور حاضر کی بے سکونی اور ذکر الٰہی: دورِ حاضر میں بے سکونی کی کیفیت ذکر الٰہی سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اہل مغرب کے ہاں خود کشیاں روحانیت سے فرار کی وجہ سے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی بے سکونی یاد الٰہی سے غفلت کی و جہ سے ہے۔ نت نئی جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں یادِ الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلا شبہ ذکر الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلاشبہ ذکر الٰہی دلوں کو سکون بخشتا ہے۔
حافظ ابن القیم الجوزی رحمہ اللہ نے ذکر الٰہی کے بہت سے فوائد اپنی کتاب ذکر الٰہی میں تحریر فرمائے ہیں جنہیں انتہائی اختصار کے ساتھ قارئین کرام کی نظر کیا جاتا ہے ۔ ذکر الٰہی شیطان کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ راضی ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی غموں اور پریشانیوں کا علاج ہے ، ذکر الٰہی سے دل میں مسرت اور خوشی پیدا ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے بدن کو تقویت ملتی ہے ، ذکر الٰہی سے انابت ( رجوع الی اللہ ) حاصل ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے تقرب الٰہی حاصل ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے معرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے ساتھ ساتھ ہیبت اور عظمت و توقیر و جلال کا سکہ بیٹھتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ عزوجل آسمانوں میں ذاکر کا تذکرہ کرتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دل کو زندگی اور تازگی نصیب ہوتی ہے ، ذکر الٰہی سے دل کا زنگ اتر جاتا ہے ، ذکر الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا جن کلمات سے ذکر کرتا ہے وہی اذکار مصائب و آلام اور تکلیف کے وقت اس کا ذکر کرنے لگتے ہیں ۔ ذکر الٰہی سے اللہ تنگدستیاں دور فرما دیتا ہے ، ذکر الٰہی سے دل کو قرار اور اطمینان نصیب ہوتا ہے ، ذکر الٰہی سے انسان لغویات سے محفوظ رہتا ہے ، ذکر الٰہی کی مجالس فرشتوں کی مجلسیں ہوتی ہیں ، ذکر الٰہی سے ذاکر نیک اور سعید ہو جاتا ہے ، ذکر الٰہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن حسرت سے مامون رہے گا ، ذاکر کو ذکر الٰہی کی برکت سے وہ نعمتیں مل جاتی ہیں جو مانگ کر لینے سے بھی نہیں ملتیں ، ذکر الٰہی تمام تر عبادات سے آسان اور افضل ہے ، ذکر الٰہی سے جنت میں درخت
لگتے ہیں ، ذکر الٰہی سے دنیا میں بھی نور قبر میں بھی نور ، آخرت میں بھی نور حاصل ہو گا ۔ ذکر الٰہی سے دل بیدار رہتا ہے ، ذکر الٰہی قرب خداوندی اور معیشت الٰہی کا ذریعہ ہے ، ذکر الٰہی صدقہ و جہاد سے افضل ہے ، ذکر راس الشکر ہے ، ذکر الٰہی سے دل کی قساوت نرمی میں تبدیل ہو جاتی ہے ، ذکر الٰہی دل کی دوا اور قلب کی شفا ہے ، ذکر الٰہی محبت الٰہی کا حصول ہے ، ذکر الٰہی ہر قسم کے شکر سے اعلیٰ ترین شکر ہے جو مزید نعمت کا باعث ہے ، ذکر الٰہی اللہ کی رحمتوں اور فرشتوں کی دعاؤ ں کا موجب ہے ، مجالس ذکر جنت کے باغات ہیں ، مجالس ذکر فرشتوں کی مجلسیں ہیں ، اہل ذکر سے اللہ تعالیٰ ملائکہ میں فخر فرماتے ہیں ، ذکر الٰہی پر ہمیشگی کرنے والا مسکراتے ہوئے جنت میں جائے گا ۔ ( قول ابودرداء رضی اللہ عنہ)
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا ، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض جملہ عروسی میں جانے کی دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر بے رہبر و نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہئیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی ہے۔